انٹرنیٹ کا جائزہ .


کمپیوٹر اورانٹرنیٹ نے روابط کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ پوری دنیا سمٹ کر ایک گاﺅں یعنی گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اب ہر کوئی ایک ہی جگہ بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کی معلومات حاصل کر کے اپنے علم میں اضافہ کر سکتا ہے۔ انٹر نیٹ نظام ایک گلوبل نظام ہے جس میں سینکڑوں ملین کمپیوٹر آپس میں ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور یہ تمام وقت ایک دوسرے سے رابطہ قائم کئے ہوئے ہیں۔

انٹرنیٹ 60 کی دہائی میں امریکہ کے چند صاحبِ بصیرت لوگوں کی کوشش کا نتیجہ ہے، جن کا خیال تھا کہ کمپیوٹر کے ذریعے تحقیق، سائنس اور فوجی معلومات کے میدان میں مطلوبہ معلومات ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر تک بھیجی جا سکتی ہیں۔ 1962ء میں ایم آئی ٹی سے منسلک جے سی آر لیک لائیڈر نے سب سے پہلے گلوبل کمپیوٹر نیٹ ورک کا منصوبہ تجویز کیا اور اسی سال ایک نئے ادارے ڈیفنس ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹس ایجنسی (ڈارپا) کے سربراہ کے طور پر اس منصوبے پر کام شروع کردیا۔

ایم آئی ٹی کے لیونارڈ کلین راک اور بعدازاں یو سی ایل اے نے ”پیکٹ سویچنگ تھیوری“ ڈیویلپ کی جسے انٹرنیٹ کنکشن کی بنیاد کا کام کرنا تھا۔ 1965ء میں ایم آئی ٹی کے لارنس رابرٹس نے میسو چوسٹس انسٹیٹیوٹ کے ایک کمپیوٹر کو ایک ڈائل اپ ٹیلی فون لائن کے ذریعے کیلی فورنیا کے ایک کمپیوٹر سے منسلک کر دیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ وائڈ ایریا نیٹ ورک بنانا ممکن ہے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ ٹیلی فون لائن سرکٹ سویچنگ اس کام کے لیے ناکافی ہے۔ اس بات سے ثابت ہوگیا کہ کلین راک کی پیکٹ تھیوری بالکل صحیح ہے۔ 1972ء میں پہلی ای میل بھیجی گئی جبکہ اسی سال ٹیلی نیٹ پروٹوکول بنایا گیا جس نے کمپیوٹر کے ریموٹ لاگ آن کو ممکن بنادیا۔ اس پروٹوکول کو ریکوئیسٹ فار کومنٹس (آر ایف سی) کا نام دیا گیا۔ آر ایف سی ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت ڈیویلپمنٹ کا کام اپنی کمیونٹی کے ساتھ بانٹا جاسکتا ہے۔ 1972ء میں ہی ایف ٹی پی پروٹوکول بنایا گیا جس نے انٹرنیٹ سائٹس پر ایک دوسرے کے ساتھ فائلوں کو منتقل کرنا ممکن بنا دیا۔

اگرچہ کمپیوٹر کی ابتداء 1976ء سے بھی پہلے شروع ہوئی مگر جب 1977ء میں بل گیٹس اور پال ایلن نے مائیکروسوفٹ کمپنی کی بنیاد ڈالی توانٹرنیٹ نے دنیا بھر میں تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔ انٹر نیٹ میں کسی بھی ویب سائٹ کے ایڈریس میں آخری الفاظ یعنی ٹاپ لیول ڈومین (ٹی ایل ڈی) کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ ٹی ایل ڈی کی سرچ انجن اوپٹیمائزیشن ( ایس ای او) کے لحاظ سے کافی اہمیت ہے۔ یہ ٹی ایل ڈی پر انحصار ہوتا ہے کہ آپ کی سائٹ سرچ انجن پر کتنی اہمیت پاتی ہے، جتنا زبردست ڈومین کا نام ہوگا اتنی ہی ویب سائٹ مشہور ہو گی۔ مثال کے طور پر جب کوئی شخص سرچ انجن پر کوئی بھی چیز ڈھونڈتا ہے تو اگر آپ کی ڈومین کا نام کسی سروس پر ہو گا تو فوراً آپ کی سائٹ سرچ میں آجائے گی۔ ویب سائٹ کی کامیابی اور مشہوری کے لئے ٹی ایل ڈی کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ٹاپ لیول ڈومین الفاظ انٹرنیشنل کارپوریشن فور نمبر اینڈ نیم الاٹ کرتی ہے جن میں نیٹ کوم، او آر جی، ای ڈی یو، جی او وی، ایم آئی ایل کے علاوہ اب اور بھی بہت سے الفاظ شامل ہیں۔ ان میں سے ای ڈی یو (تعلیم)، جی او وی (حکومت) اور ایم آئی ایل (ملٹری) صرف حکومتوں اور اداروں کے لیے مخصوص ہیں جبکہ دیگر ٹاپ لیول ڈومین تک ہر فرد کی رسائی ہے۔

اس وقت پاکستان میںڈھائی کروڑ سے زائد افراد انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں جن میں طالبعلموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان کے ایک ہزار آٹھ سو بارہ شہر اب تک انٹر نیٹ سے منسلک ہو چکے ہیں اور ان میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پنجاب کے 1091، سندھ کے 202، صوبہ سرحد کے 404 اور بلوچستان کے 110 شہر اور قصبے انٹرنیٹ سے منسلک ہو چکے ہیں ۔ پاکستان میںتین طرح کے انٹرنیٹ کنکشن دستیاب ہیں ایک تو بذریعہ ٹیلی فون لائن کسی بھی آئی ایس پی (انٹرنیٹ سروسزپرووائیڈر) سے رابطہ کر کے کنکشن لیا جاتا ہے جبکہ دوسرا طریقہ بعذریعہ کیبل سسٹم بھی متعارف ہوا ہے اور بذریعہ وائرلیس (برانڈبینڈوائرلیس سسٹم) انٹر نیٹ کنکشن بھی لیا جا سکتا ہے۔


آج کے جدید دور میں انٹرنیٹ کے ذریعے کاروبار سے لے کر تعلیم کے حصول تک سائبر اسپیس کا استعمال عام ہو گیا ہے۔بلکہ دنیا کمپیوٹر سیٹس کی مجبوری سے نکل کر لیپ ٹاپ اور اب تو موبائلز میں بھی انٹرنیٹ بہت ہی کم ریٹس اور ہر جگہ باآسانی موجود ہے۔




پاکستان بھی رواں سال میں اپنے پہلے جدید مواصلاتی سیارے پاک سیٹ ون آرکی نشریات کا افتتاح کرچکا ہے۔ چین کے تعاون سے مکمل ہونے والے اس منصوبے کے لئے لاہور اور کراچی میں دو جدید گراونڈ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں۔ اس سیارے کی بدولت پاکستان جنوبی ایشیا، مشرقی افریقہ، وسط ایشیا اور یورپ سے منسلک ہو جائے گا۔ مواصلاتی سیارہ پندرہ برس تک انٹرنیٹ اور ڈیٹا سروسز کی سہولتیں فراہم کرے گا۔ مواصلاتی سیارہ بارہ اگست 2011ء کو چین کے مواصلاتی مرکز سے مدار میں چھوڑا گیا تھا۔

انٹرنیٹ نیٹ پر کچھ بھی ڈھونڈنے کے لئے سرچ انجن کا استعمال نہایت اہم ہوتا ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سرچ انجنز میں سر فہرست گوگل خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ گوگل کی سائٹ پردنیا کی مختلف زبانوں کی سہولت موجود ہے، جس کی وجہ سے گوگل پر انگریزی کے علاوہ، ہسپانوی، فرانسیسی، پرتگیزی، جرمن، اردو اور پنجابی میں بھی سرچنگ کا عمل کیا جاسکتا ہے۔ اس سرچ انجن کے ذریعے دنیا میں زیادہ تر استعمال ہونے والی زبانوں میں کمپیوٹر استعمال کرنے والا با آسانی اپنے سرچنگ کے عمل کو انجام دے سکتے ہیں۔ گوگل کے علاوہ چند دیگر سرچ انجن بھی استعمال کے اعتبار سے قابلِ ذکر ہیں، جیسے ایم ایس این، یاہو، سفاری، موزیلالائیکوس اور دیگر۔۔۔

آج کی نوجوان نسل کے ہاتھوں میں کورس کی کتابوں کے علاوہ دوسرے مضامین کی کتابیں کم ہی نظر آتی ہیں۔ ایسے میں اگر انہیں کوئی تاریخ، ادب، یا سائنس کی کسی ایجاد کی اسائنمنٹ تحریر کرنے کا کام دے دیا جائے تو طالب علم لائبریری کے چکر کاٹنا شروع کر دیتے تھے یا پرانی کتابوں کی تلاش کا عمل شروع ہو جاتا تھاجو ایک دقت طلب اور مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔ تاہم انٹرنیٹ کی آمد سے اس مسئلے کا حل آپ کے مائیکرو کمپیوٹر میں ہی موجود ہے۔یہی کام انٹرنیٹ کی اصطلاح میں سرچنگ کہلاتا ہے۔

اس وقت انٹرنیٹ پر کروڑوں یا شاید اربوں کے حساب سے ویب سائٹس موجود ہیں، جن میں کرہءارض پر موجود ہر شعبے، صنف، سے متعلق معلومات تفصیل سے موجود ہیں، صرف سرچ انجن پر وہ چیز لکھنے کی دیر ہے اور تمام تفصیلات با آسانی دستیاب ہو جاتی ہیں۔ آج ہم انٹرنیٹ کی بدولت اپنے کتنے ہی دور بیٹھے رشتے دار سے بزریعہ ای میل ، چیٹ یا پھروائس میل باآسانی بات چیت کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی ہی بدولت تعلیم کا نظام بہتر ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت انٹرنیٹ بلوگز، سماجی روابط کی ویب سائٹس، موبائل ایس ایم ایس اور دیگر کے ذریعے خبریں اور معلوماتی مواد کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ روایتی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی اور دیگر کاروباری افراد معلومات کو عوام تک پہنچانے کے لیے بڑی تعداد میں سوشل میڈیا سائٹس جیسے فیس بک ، ٹوئٹر، مائی اسپیس، گوگل پلس ، ڈگ اور دیگر سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ سب کچھ انٹرنیٹ کی بدولت ممکن ہوا ہے۔
Share on Google Plus

About BiggTrixs

Hello guys.If you need any help or have any questions in mind then you can comment below.If you want more tricks delivered to you for free then you can join our . You can also join us on and to get our latest posts in your feed.

Support Us by Sharing this article with your friends

    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment